FeaturedNewsPakistan

مشروط حکومت کی مشروط شفافیت

آج کل ہر طرف سینٹ انتاخابات اوپن بیلٹ سے کروانے کے لیے جاری کیے گئے صدارتی آرڈینینس پر بات ہو رہی ہے۔

ایک طرف جہاں اپوزیشن اس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پارلیمنٹ اور آئین پر حملہ قرار دے رہی ہے وہیں حکومتی ترجمان دن رات اوپن بیلٹ کے فضائل بیان کر رہے ہیں۔

اگر پاکستان تحریک انصاف اتنی ہی شفافیت پسند ہے اور چاہتی ہے کہ صاف اور شفاف انتاخابات ہوں تو پی ٹی آئی کو چاہیے تھا کہ یہ ترمیم 2019 میں اس وقت لاتے جب چیئرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تھی ۔ تب شاید اپوزیشن بھی ہنسی خوشی اس کو تسلیم کر لیتی لیکن اس وقت اگر یہ ترمیم لائی جاتی تو صادق سنجرانی صاحب یقینا آج سابق چئیرمین سینٹ ہوتے۔

ابھی صدارتی آرڈینینس جاری کرنے سے قبل صدر عارف علوی نے ایک صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیجا جس میں ایوان بالا ( سینٹ) کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے پر اعلی عدلیہ سے رائے مانگی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں دیا تھا کہ صدر صاحب نے سینٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری کی بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کے لیے صدارتی آرڈینینس جاری کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ اس آرڈینینس کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط کر دیا ۔

اس کا مطلب یہ یے کہ اگر سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر فیصلہ دیتی ہے کہ سینٹ انتاخابات اوپن بیلٹ سے ہوں تو یہ صدارتی ریفرنس لاگو ہو جائے گا بصورت دیگر الیکشن خفیہ رائے شماری سے ہی ہوں گے۔

ڈھائی سال گزرنے کے بعد بھی حکومت یہ نہیں سمجھ سکی کہ جس طرح احتساب وہ ہوتا ہے جو کسی تفریق کے بغیر ہو اسی طرح شفافیت بھی تب آتی ہے جب مفادات کو پس پشت ڈالا جائے۔

جس طرح صدارتی آرڈینینس سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہے اسی طرح یہ شفافیت بھی صرف اور صرف حکومتی فائدے سے مشروط ہے۔

اس آرڈینینس سے حکومت نے نہ صرف اعلی عدلیہ کو متنازع بنانے کی کوشش کی بلکہ اپوزیشن کو یہ بھی بتا دیا کہ تحریک انصاف کو اس وقت اپنے اندر کی بغاوت کا کس قدر خطرہ ہے اور وہ سپریم کورٹ کے کندھے پر بندوق رکھ کر اپنے اندر کی اس بغاوت کو دبانا چاہتے ہیں۔

کوئی بھی فرد شفافیت کے خلاف نہیں لیکن مشروط شفافیت پر سب کو اعتراض ہے۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ اپنے مفادات کی خاطر اداروں کو متازع بنانے سے ملک میں کوئی بہتری نہیں آئے گی بلکہ ملک مزید تباہی کی طرف جائے گا۔ اس سے قبل تحریک انصاف ہی کی وجہ سے فوج جیسا مقدس ادارہ متازع ہوا۔ یہاں پر اداروں کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کسی ایک جماعت یا گرو کی خاطر خود کو متنازع نہ کریں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس حوالے سے کیا فیصلہ سناتی ہے۔ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے لیکن حکومت کی سینٹ انتاخابات کے حوالے سے بھوکلاہٹ واضع ہے۔

Bilal Azmat

Bilal Azmat is a media studies and journalism graduate with 4 years experience of active journalism in TV & on SM

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Back to top button