میرے لئے اور شائد پورے پاکستان کے صحافیوں کے لئے ایکسپریس نیوز کے کیمرہ مین فہیم مغل کی خودکشی کسی سانحہ اور المیہ سے کم نہ ہو۔
صحافی کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ان کی طبعی عمر باقی پروفیشنلز کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ غالبا یہ قرار دی جاتی ہے صحافت ایک ایسا پروفیشن ہے جس میں ڈیڈ لائن ہوتی ہے یعنی ایک ہفت روزہ میں ہفتے کے سات میں سے بھی کم چار سے پا چ دن کے اندر ایڈیٹر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس نے ہفت روزہ اخبار یا میگزین کو تیار کر کے چھپننے کے لئے پریس کو بجھوانا ہوتا ہے جبکہ اس میگزین کے رپورٹر کو انہی چار پانچ دنوں کے اندر اپنا انٹرویو یا سٹوری فائل کرنا ہوتی ہے۔
اسی طرح روزنامہ میں کام کرنے والے صحافی کے لئے اسی روز شام تک یا کاپی جانے سے دو گھنٹے پہلے تک خبر دینا ہوتی ہے جبکہ سب ایڈیٹر اور نیوز ایڈیٹر اور چیف نیوز ایڈیٹر کے لئے رات دو بجے تک کاپی بجھوانا ضروری ہے۔ یہ وہ ڈیڈ لائن ہے جو اب الیکٹرانک میڈیا میں اور بھی سکڑ کر رہ گئی ہے۔ یہاں کا رپورٹر اپنے ہر گھنٹے کے خبر نامہ سے قبل خبر اور سٹوری فائل کرنے کا پابند ہے بلکہ اس رپورٹر پر تو مسلسل بریکننگ نیوز اور اس کے فالو اپ کا بھی دبائو ہوتا ہے۔
یوں یہ ڈیڈ لائن اکثر اوقات ایسے دبائو کا باعث بنتی ہے جس کے باعث صحافیوں کو نہ صرف ٹینشن کی تمام بیماریاں جن میں شوگر، بلڈ پریشر، السر، امراض قلب وغیرہ اپنے چنگل میں لے لیتی ہیں جس کے باعث اکثر صحافی جوانی میں ہی ان امراض کا شکار ہوجاتے ہیں اور اکثر ان بیماریوں کے ہاتھوں لقمہ اجل ہوجاتے ہیں۔
درج بالا وجوہ تو ہیں دنیا میں صحافیوں کہ کم عمری میں وفات پا جانے کی مگر پاکستان جیسے ملکوں میں صحافی کے لئے ڈیڈ لائن کے ساتھ ٹینشن کی دوسری بڑی وجہ بدترین معاشی حالات اور جاب سیکورٹی کا نہ ہونا بھی ہے۔
ہمارے یہاں اکثر میڈیا اداروں میں بروقت تنخواہ کا کلچر نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ بیشتر میڈیا اداروں کے بارے میں تو یہ تاثر عام ہے وہاں ایک رپورٹر اور فوٹو گرافر کو یہ کہہ کر ادارے میں نوکری دی جاتی ہے کہ وہ یہاں ادارے کے پریس ومیڈیا کارڈ کی بنا پر اپنے ذاتی تعلقات کو بڑھانے اور لوگوں کی جیبوں سے پیسے نکلوانے کا حق تو رکھتا ہے مگر اسے ادارے سے تنخواہ طلب کرنےکا قطعا کوئی حق نہیں بلکہ ایسے اداروں سے جب کسی رپورٹر اور فوٹو جرنلسٹ کو فیلڈ میں بھیجا جاتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ “جا پتر داتا دربار اپنی کھا آئیں تے ساڈی لے آئیں” اسی طرح علاقائی نامہ نگاروں کی حد تک تو یہ سوچ تمام میڈیا اداروں می پائی جاتی ہے بلکہ ان بچاروں سے تو الٹا ہر ماہ اشتہارات کی مد میں لاکھوں روپے الگ سے بٹورے جاتے ہیں
ایسے حالات میں میڈیا اداروں میں کسی غریب صحافی فوٹو جرنلسٹ اور نیوز کیمرہ مین کے لئے جاب سیکورٹی کا تو تصور ہی محال ہے.
حال ہی میں خود کشی کرنے والے ایکسپریس نیوز کے کیمرہ مین فہیم مغل بھی ایسے ہی معاشی حالات سے گھبرا کر خودکشی ایسے راستے سے اگلی دنیا میں چلا گیا جیسے اگرچہ درست نہیں سمجھا جاتا۔ کچھ کوگ اسے بزدلی سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ علماء کرام کی نظر میں تو یہ حرام فعل ہے مگر کاش ہمارے مذہبی پیشوا اور حکام ایسے درندوں کے بارے میں بھی کوئی حرام خوری کے فتوے دے سکیں کہ جو میڈیا مالکان اپنے میڈیا اداروں میں ایک بھی ملکی قانون پر عمل نہیں کرتے اور اپنے ملازمین کو نہ ریگولر نوکری دیتے ہیں۔
نہ جاب سیکورٹی دیتے ہیں اور نہ ہی قانون کے مطابق ویج ایورڈ دیتے ہیں وہ سب کے سب حرام خوری کر رہے ہیں اور حرام خوری کی جو سزا اسلام میں اس سزا کے یہ میڈیا مالکان اصل حق دار ہیں۔
کاش جس طرح ہمارے علماء کرام لوگوں کو مذہبی ایشوز پر قانون ہاتھ میں لینے کو عین اسلامی قرار دیتے ہیں اسی طرح ان تمام حرام خور مالکان بھلے وہ میڈیا انڈسٹری میں ہوں یا کھیت مزدورں کا استحصال کرنے والے جاگیردار ہوں یا کسی فیکٹری اور مل کے مالک ہوں اور وہ اپنے ذمہ ملازمین کے قانونی حق کھانے پر حرام خوری کے مرتکب قرار دیئے جائیں اور ایسے تمام حرام خوروں کا اسلامی قوانین کے تحت ہر کسی کو سخت سزادینے کا حق مل جائے تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پھر پاکستان کی کسی میڈیا انڈسٹری ہی کیا۔ بلکہ کسی کھیت۔ کسی فیکتری یا مل میں صحافیوں۔ فوٹو جرنلسٹ۔ نیوز کیمرہ مین۔
کسانوں، محنت کشوں کااستحصال نہیں ہو سکے گا اور نہ ہی کوئی فہیم مغل اپنے دودھ سے بلکتے ننھے بچے کی چیخوں سے پریشان ہو کر خودکشی میں اپنے مسائل کا حل ڈھونڈے گا۔
آخر میں دکھ اور شدید تکلیف کے ان لمحات میں میری چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار سے یہ اپیل ہے کہ وہ فہیم مغل کی خودکشی کا از خود نوٹس لیں اور ایک ایسا جوڈیشل کمیشن بنائیں جس میں فہیم مغل کی خودکشی کی وجوہ کا پتہ چلایا جائے۔
اگر فہہم مفل ایکسپریس نیوز کی انتظامیہ میں سنگدلی اور ظالمانہ ورکرز دشمن پالیسی کا شکار ہوا ہے تو ایکسپریس نیوز کی انتظامیہ کو ذمہ دار قرار دے کر فہیم مغل کی بیوہ اور بچوں کے تمام اخراجات کی ادائیگی ایکسپریس نیوز کے کھاتے میں ڈالی جائے۔