BlogFeaturedNewsPakistan

تحفظ پاکستان اور تحفظ ختم نبوت صلی الله علیہ وآلہ وسلم

ماہ ستمبر پاکستان سمیت پوری امت مسلمہ کے نزدیک بہت اہمیت کا حامل ہے، اس مہینے میں الله تعالٰی نے پاکستان کے غیور مسلمانوں کو دو فتح نصیب فرمائی ہیں۔ پہلی فتح 6 ستمبر 1965ء کو جب پاکستان نے انڈیا کو ناکوں چنے چبوائے اور دوسری فتح 7 ستمبر 1974ء کو جب پاکستان کی قومی اسمبلی کے ایک سو تیس ارکان نے یک زباں ہو کر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا تھا۔

یہ دو وہ عظیم فتوحات ہیں جو الله تعالٰی نے پاکستانیوں کو عطاء فرمائی ہیں لیکن بڑی شرمندگی کی بات ہے کہ آج پاکستان کی نئی نسل کو اپنے محسنوں کی تاریخ کا علم نہیں ہے۔ آج کے نوجوان کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ 1965 کی جنگ میں پاکستانی قوم نے اپنی افواج کے ساتھ مل کر بھارت کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا کر کس طرح شجاعت کی مثال قائم کی تھی؟ آج کے نوجوان کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ پاک فضائیہ نے جواں مردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کس طرح بھارت کے 110 جہاز مار گرائے تھے؟ آج کے نوجوان کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ پاک فضائیہ نے کس طرح بھارت کی حدود میں گھس کر پٹھان کوٹ حملے میں بھارت کے 14 جہازوں کو تباہ کیا تھا؟ آج کے نوجوان کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ انڈین میجر جنرل نرنجن پرساد نے اپنے بھارتی فوجیوں کو کہا کہ آج شام کی پارٹی لاہور جم خانہ میں ہوگی لیکن پاکستان کے بہادر جوانوں نے اور پاک فضائیہ کے شاہینوں نے کس جواں مردی کے ساتھ انڈین فوج کے ٹینکوں کو تباہ کرکے لاہور کو بچایا اور انڈین میجر جنرل کا غرور خاک میں ملایا؟

آج کا نوجوان 6 ستمبر کے روز ایم ایم عالم کو خراج عقیدت ضرور پیش کرتا ہے کہ اس نے ایک منٹ میں دشمن ملک کے 5 جہازوں کو نشانہ بنا کر تباہ کیا لیکن اس کامیابی کے پیچھے چھپی جدوجہد کو پرکھنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ایم ایم عالم نے پاک سر زمین کو نقصان پہنچانے والے انڈین جہازوں کا تعاقب کیسے کیا اور ایم ایم عالم کا گنریز اسکور کیسا تھا؟

آج کا نوجوان میجر عزیز بھٹی شہید کی تصویر کو سینے پہ سجا کر فخر محسوس کرتا ہے لیکن میجر عزیز بھٹی شہید کی شجاعت کا علم نہیں ہے کہ انہوں نے کس طرح بی آر بی نہر کے کنارے انڈین فوج کا مقابلہ کرکے جام شہادت نوش کیا؟ آج کے نوجوان کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ جنگ ستمبر میں پاکستانی خواتین کا کیا کردار رہا ہے اور وہ کس طرح اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتی رہی ہیں اور کس طرح ہمارے فوج کے جوانوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہی تھیں؟ یقیناً یہ وہ تلخ سوالات ہیں جس کو آج ہم سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں، آج کا نوجوان محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی کو اپنا ہیرو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ ٹی وی سکرینوں پر نظر آنے والے اداکاراؤں کو اپنا ہیرو بنا کر فخر محسوس کرتا ہے۔ آج کے مسلم نوجوان کا ماضی بہادری اور شجاعت کی تصویروں سے بھرا پڑا ہے لیکن وہ اس بہادری اور شجاعت کے بارے میں جاننے کے لیے تیار نہیں ہے۔

آج کے نوجوان کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ جس طرح پاکستان نے 6 ستمبر 1965 کی جنگ جیتنے کے لیے کوششیں کیں بالکل اسی طرح ختم نبوت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ کے لیے بھی مسلمانوں نے بہت سی تحریکیں شروع کی تھیں۔

آج کے مسلم نوجوان کو علم ہونا چاہئیے کہ جب برصغیر میں مقیم علمائے کرام نے 1803ء میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا اعلان کیا تو بہت سے مسلمانوں نے علماء کی درخواست پر اس جنگ میں حصہ لیا اور یہ جنگ کئی سالوں تک برصغیر میں انگریزوں کے خلاف لڑی گئی، جب انگریزوں کو اس بات کا علم ہوا کہ ہمیں 87 سال ہوگئے ہیں

برصغیر میں جنگ لڑتے ہوئے لیکن مسلمان شکست سے دو چار نہیں ہو رہے تو اس وقت انگریزوں نے مسلمانوں کو شکست دینے کے لیے غلام احمد قادیانی کو جھوٹی نبوت کا دعویٰ کروا کر مسلمانوں کے مقابلے میں کھڑا کر دیا اور اس نے جھوٹی نبوت کے دعوے کے بعد یہ اعلان کیا کہ آج کے بعد انگریزوں کے خلاف کیا جانے والا جہاد جائز نہیں ہے بلکہ ناجائز ہے، اب برصغیر کے مسلمانوں کو دو چیلنجرز بیک وقت درپیش آگئے لیکن سلام ہے برصغیر کے علمائے کرام کو جنہوں نے انگریز کے ساتھ ساتھ غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کا بھی مقابلہ کیا اور تحفظ ختم نبوت کی تحریک میں مولانا شاہ ولی اللہ دہلوی‪ ‬، مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی‪ ‬، مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی‪ ‬، مولانا شاہ عبدالقادر دہلوی‪ ‬، مولانا سید احمد شہید‪ ‬ رائے بریلوی، مولانا سید اسماعیل شہید دہلوی‪ ‬، مولانا شاہ اسحاق دہلوی‪ ‬، مولانا عبدالحئی بڈھانوی‪ ‬، مولانا ولایت علی عظیم آبادی‪ ‬، مولانا جعفر تھانیسری‪ ‬، مولانا عبداللہ صادق پوری‪ ‬، مولانا نذیر حسین دہلوی‪ ‬، مفتی صدرالدین آزردہ‪ ‬، مفتی عنایت احمد کاکوری‪ ‬،مولانا فرید الدین شہید دہلوی‪ ‬، سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی‪ ‬، امام حریت مولانا محمد قاسم نانوتوی‪ ‬، مولانا رشید احمد گنگوہی‪ ‬، قاضی عنایت احمد تھانوی‪ ‬، قاضی عبدالرحیم تھانوی‪ ‬، حافظ ضامن شہید‪ ‬، مولانا رحمت اللہ کیرانوی‪ ‬، مولانا فیض احمد بدایونی‪ ‬، مولانا احمد اللہ مدراسی‪ ‬، مولانا فضل حق خیرآبادی‪ ‬، مولانا رضی اللہ بدایونی‪ ‬، امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد‪ ‬، امام انقلاب شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی‪ ‬، مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری‪ ‬،مولانا محمد علی جوہر‪ ‬، مولانا حسرت موہانی‪ ‬، مولانا شوکت علی رام پوری‪ ‬، مولانا عبید اللہ سندھی‪ ‬، مولانا ڈاکٹر برکت اللہ بھوپالی‪ ‬، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی‪ ‬، مولانا کفایت اللہ دہلوی‪ ‬، مولانا سیف الرحمن کابلی‪ ‬، مولانا وحید احمد فیض آبادی‪ ‬، مولانا محمد میاں انصاری‪ ‬، مولانا عزیر گل پشاوری‪ ‬، مولانا حکیم نصرت حسین فتح پوری‪ ‬، مولانا عبدالباری فرنگی محلی‪ ‬، مولانا ابوالمحاسن سجاد پٹنوی‪ ‬، مولانا احمد سعید دہلوی‪ ‬، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی‪ ‬، مولانا محمد میاں دہلوی‪ ‬، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری‪ ‬، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی‪ ‬، مولانا احمد علی لاہوری‪ ‬، مولانا عبدالحلیم صدیقی‪ ‬، مولانا نورالدین بہاری‪ ‬سمیت بہت سے مسلمان نوجوانوں اور علمائے کرام نے جام شہادت نوش کیا۔

ختم نبوت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی تحریک 1888ء سے لیکر آج تک چلتی ہی آ رہی ہے اور قادیانیت کے خلاف جدوجہد کرنے میں مولانا عبد السّتار خان نیازی اور مولانا مودودی کو پھانسی دینے کا حکم بھی ہوگیا تھا لیکن بعد میں اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

اب علمائے کرام اس جھوٹی نبوت کے دروازے کو سرکاری سطح پر بند کرنا چاہتے تھے چنانچہ اس وقت پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے، اس وقت کے جید علمائے کرام مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا ثناء الله امرتسری، مولانا یوسف لدھیانوی، آغا شورش کاشمیری نے ذوالفقار علی بھٹو کو سرکاری سطح پر قادیانیوں کے خلاف قانون نافذ کرنے کا مطالبہ کیا، جب ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا بل پیش کیا تو انہوں نے کہا کہ ” میں بیشک بہت برا ہوں، انسان ہوں، بہت گنہگار ہوں لیکن تحفظ ختم نبوت کی وجہ سے الله تعالٰی میری مغفرت فرما دیں گے۔”

آغا شورش کاشمیری جو ذوالفقار علی بھٹو کے سخت مخالف تھے انہوں نے بھی بھٹو صاحب کی تعریف میں یہ کلمات ادا کیے کہ “ذوالفقار علی بھٹو نے ختم نبوت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا قانون نافذ کرکے اپنی موت کو گلے سے لگا لیا ہے۔”

جب ذوالفقار علی بھٹو نے ختم نبوت کے بل پر دستخط کیے تو ساتھ انکے یہی الفاظ تھے کہ آج کے دن میں اپنی موت پر دستخط کر رہا ہوں، کیونکہ اس بل کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کے اوپر بہت زیادہ دباؤ تھا اور امریکہ نے ایک خط کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کو دھمکی بھی دی تھی جس کا ذکر انہوں نے “راجہ بازار راولپنڈی” میں کیا تھا کہ اب سفید ہاتھی مجھے نہیں چھوڑے گا۔ کرنل رفیع جو جیل میں ذوالفقار علی بھٹو کی حفاظت پر مامور تھے انہوں نے اپنی کتاب ” بھٹو کے آخری 313 دن ” میں لکھا کہ بھٹو مرحوم کہتے تھے کہ ختم نبوت کا مسئلہ حل کرانا میری نجات کے لیے کافی ہے اور پھانسی سے ایک دن قبل بھٹو مرحوم نے کرنل رفیع کو کہا کہ کرنل رفیع آج قادیانی تو بہت خوش ہوں گے کیونکہ ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے والا حکمران پھانسی لگ گیا۔ یقیناً اس جدوجہد میں بھٹو صاحب نے بھی اتنا ہی حصہ لیا جتنا حصہ علمائے کرام ختم نبوت کی تحریوں میں لیتے رہے۔

میری دعا ہے کہ الله تعالٰی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی ختم نبوت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے لیے کی گئی کاوشوں کے صدقے انکی مغفرت فرمائے اور آج کے نوجوان کو اپنے حقیقی ہیرو کے بارے میں جاننے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published.

Back to top button